سید حسن مرتضیٰ کا حکومت سے مطالبہ: “گندم خریداری کا واضح میکنزم بتایا جائے”

سید حسن مرتضیٰ کا حکومت سے مطالبہ: “گندم خریداری کا واضح میکنزم بتایا جائے”
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید حسن مرتضیٰ نے پنجاب حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے ضرور رہا، مگر وقت نے ثابت کر دیا کہ پیپلز پارٹی کا مؤقف درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے شکر گزار ہیں جنہیں آخرکار وہ مؤقف اپنانا پڑا جو پیپلز پارٹی پہلے دن سے کہہ رہی تھی کہ کاشتکار ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب گندم کی برداشت کا وقت آیا تو حکومت نے خریداری بند کردی، جس کے باعث گندم 39 روپے فی کلو کے بجائے سستی فروخت ہوئی اور کاشتکار کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔
“ہمارا مطالبہ مکمل طور پر پورا تو نہیں ہوا، مگر حکومت نے جزوی طور پر ہماری بات مانی اور فی من قیمت 3500 روپے مقرر کی۔ لیکن آج جب قیمت بڑھا دی گئی ہے، کسان کے پاس گندم ہی نہیں، وہ اب مڈل مین کے پاس ہے، اور فائدہ بھی اسی کو ہوگا۔”

انہوں نے سوال اٹھایا کہ “کس میکنزم کے تحت گندم خریدی جائے گی؟”
“میں خود پنجاب کا کاشتکار ہوں، میرے پاس زراعت کے علاوہ کوئی ذریعہ معاش نہیں۔ حکومت واضح کرے کہ اب گندم خریدے گا کون؟”

سید حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پاسکو (PASSCO) کو بلاوجہ ختم کردیا گیا، حالانکہ وہ حکومت پر بوجھ نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنی چاہیے تاکہ ایسے اختلافات پیدا نہ ہوں۔

سیلاب اور امدادی اقدامات پر تنقید

سید حسن مرتضیٰ نے کہا کہ سیلاب کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب کو غلط اعدادوشمار فراہم کیے گئے، جس سے ریلیف کارروائیاں متاثر ہوئیں۔
“ہم نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ڈیٹا استعمال کریں تاکہ متاثرہ کسانوں کو فوری مالی امداد دی جا سکے، مگر حکومت نے ہمارے اس مشورے کو نظرانداز کردیا۔”

انہوں نے کہا کہ حکومت نے فی ایکڑ صرف 5 ہزار روپے امداد کا اعلان کیا، جبکہ صرف کھاد کی ایک بوری ہی 15 ہزار روپے کی ہے۔
“ریسرچ سینٹر کسانوں کو معیاری بیج نہیں دے رہے، پانچ ہزار روپے میں کسان کیا کرے گا؟ اس رقم سے تو بیج، کھاد اور مزدوروں کا خرچ بھی پورا نہیں ہوتا۔”

ماحولیاتی تبدیلی اور سموگ کا بحران

سید حسن مرتضیٰ نے ماحولیاتی تبدیلی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ لاہور میں سموگ کی شدت خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے، ایئر انڈیکس 200 پوائنٹس سے تجاوز کر گیا ہے اور سانس لینا مشکل ہو گیا ہے۔
“یہ وہ نقصان ہے جو عالمی ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان برداشت کر رہا ہے۔ ہم کسی سے بھیک یا قرض نہیں مانگ رہے، بلکہ انصاف چاہتے ہیں۔ بین الاقوامی انڈسٹریز پیسہ کما رہی ہیں اور اس کا خمیازہ پاکستان بھگت رہا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ کہتی رہی ہے کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کا ذمہ دار ملک نہیں بلکہ متاثرہ ملک ہے۔
“ہمیں دنیا کے سامنے اپنا مقدمہ مضبوط انداز میں پیش کرنا چاہیے کہ ہمیں امداد نہیں بلکہ معاوضہ دیا جائے۔”

“پالیسی نہیں، رویہ درست کرنے کی ضرورت ہے”

پیپلز پارٹی رہنما نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کے تحفظات سننے کے لیے اتحادی جماعتوں سے مشاورت کرے، اور کمیونیکیشن اسکلز بہتر بنائے۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کے ترجمانوں کو بھی اپنے الفاظ کے چناؤ میں احتیاط کرنی چاہیے تاکہ سیاسی تعلقات میں تلخی نہ آئے۔

“پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ ہے مگر اندھے فیصلوں کی حمایت نہیں کرے گی۔”
انہوں نے کہا کہ حکومت فوری طور پر

گندم خریداری کا شفاف میکنزم واضح کرے،

کاشتکاروں کے لیے امدادی پیکج میں اضافہ کرے،

ریسرچ سینٹرز میں بیج کی فراہمی یقینی بنائے،

اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

“ہم نے مشورے دیے، تنقید نہیں کی — اب وقت ہے حکومت ان پر عمل کرے،”
سید حسن مرتضیٰ کا اختتامی پیغام۔

اپنا تبصرہ لکھیں